ستمبر 14 کی پریس کانفرنس
علی امین گنڈاپور پوری قوم سے معافی مانگے
پٹرول کی قیمیت پونے دو سو ہونی چاہیے اس وقت کی مارکیٹ کے حساب سے
جلسہ کامیاب کرانے میں حکومت کی نااہلی شامل ہے
ملک کے مفاد میں عمران خان سے بات چیت ضروری ہے۔
وہ کونسے حالات ہیں جس کی وجہ سے لوگ فوج کو اپنے علاقے میں دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔
چار ہزار ارب روپے بچ سکتے ہیں اور بجلی سستی ہوسکتی ہے۔
ہم اپنے معاہدے پر عمل کروانا جانتے ہیں کیسے کروائیں گے۔۔۔۔ یہ وقت پر
کچے کے ڈاکو پکے کے ڈاکوؤں کی سرپرستی میں کام کررہے۔
۔
آپ سب کی تشریف آوری کا بہت شکریہ کچھ اہم موضوعات ہیں اس وقت جو ملک کی صورتحال ہے اس کے اعتبار سے اس وقت آپ کو معلوم ہے کہ جماعت اسلامی ممبرشپ کیمپین کر رہی ہے اور الحمدللہ پورے ملک میں خاص طور پر نوجوانوں کا اور مجموعی طور پر عوام کا ایک رجوع ہے اور جہاں جہاں ہمارے کارکن پہنچ رہے ہیں جو بڑی تعداد میں جماعت اسلامی کے ممبر شپ کا فارم فل کر رہے ہیں اور اس مہینے 12 ربیع الاول کے بعد انشاءاللہ ایک نیا فیس ممبرشپ مہم کا ہم شروع کریں گے اور اللہ نے چاہا تو ہم اپنے تمام اداب پورے کریں گے ہمارا پہلا ادب یہ ہے کہ 50 لاکھ ممبر پورے پاکستان میں جماعت اسلامی کے بن جائیں اور اس کی یہ ضرورت اس لحاظ سے بھی ہے کہ جو تحریک جماعت اسلامی نے شروع کی ہے حق کو عوام کو اور اس تحریک کے حوالے سے ہی بجلی کی قیمتوں پیٹرولیم کی لیوی تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس اس کے حوالے سے جو ہمارا دھرنا تھا احتجاج تھا ہڑتال تھی اس کے فالو آپ میں ہمیں آگے چل کر اب بہت بڑی سرگرمیاں کرنی ہے اور اس سطح پر اس عوامی احتجاج کو منظم کرنا ہے کہ یا تو حکومت تسلیم کر لے عوام کے اس حق کو ورنہ پھر یہ تحریک بہت آگے تک جائے گی انشاءاللہ اس کے لیے ہمیں عوام کے ساتھ کی ضرورت ہے اور اپنے جو ہمارا تنظیمی سکیلٹن ہے جو ہمارا ڈھانچہ ہے اس کو بھی وسعت دینے کی ضرورت ہے اور ممبرشپ کیمپین میں الحمدللہ ہم یہ اہداف حاصل کر رہے ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ جماعت اسلامی میں شامل ہو رہے ہیں تو میں ایسے سارے لوگوں کو ان کا خیر مقدم بھی کرتا ہوں جنہوں نے جماعت اسلامی کی ممبرشپ فارم کو فل کیا ہے اور ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیں اور میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ جماعت اسلامی کے ممبرشپ کے لیے ا یہ نہ کوئی ہمیں مسلک کا ایشو ہے نہ زبان کا ایشو ہے نہ علاقے کا مسئلہ ہے ہر وہ شخص جو اسلام کے نظام کی حمایت کرتا ہے کہ وہ عدل اور انصاف کا نظام ہے جو پاکستان کے استحکام کی بات کرتا ہے اس کی بقا کی بات کرتا ہے اتحاد اور یکقیدی کی بات کرتا ہے اور عوام کے حق پر اختیار کے لیے جدوجہد کرنا چاہتا ہے وہ جماعت اسلامی کے ساتھ شامل ہو سکتا ہے اور اسلام کی دعوت اتنی افاقی ہے بحیثیت نظام کے کہ جو غیر مسلم لوگ ہوتے ہیں وہ بھی اسی نظام میں عافیت محسوس کرتے ہیں اور جماعت اسلامی کی اس ممبرشپ میں الحمدللہ پاکستان کی اقلیتی برادری کے لوگ بھی اس کا فارم کو فل کر رہے ہیں اور ہمارے ساتھ شامل ہو رہے ہیں تو یہ بہت بڑی اچیومنٹ ہے کہ جماعت اسلامی عوام میں تیزی کے ساتھ اپنی جو مقبولیت ہے اس اور اپنی جو تنظیم ہے اس کو بڑھا رہی ہے اور اس کے دوسرے مرحلے پہ ہم پورے پاکستان میں مختلف سطحوں پر نچلی سطحوں پر کمیٹیوں کا قیام عمل میں لائیں گے جس میں گراس روٹ لیول پر یہ ایک طاقت بنے گی اور اللہ نے چاہا تو یہ طاقت پاکستان کے استحکام کے لیے اور عوام کے حق کے لیے ایک موثر جو ہے وہ ذریعہ ثابت ہوگی انشاءاللہ میں نے اسی سلسلے میں ہماری پوری ٹیم دورہ کر رہی ہے میں خود بھی کل پشاور میں تھا اس سے پہلے اسلام اباد میں اس سے پہلے کراچی میں اور پورے پاکستان میں ہی الحمدللہ دورے ہو رہے ہیں وزٹ ہو رہے ہیں اور ہر جگہ ہمیں ایک بہترین رسپانس نظر ا رہا ہے جو صورتحال ہے ملکی اس میں اج اس بات کا امکان موجود ہے اگرچہ کہ انہوں نے قومی اسمبلی اور سینٹ کے ایجنڈے پر تو واضح طور پر نہیں رکھا ہے لیکن حکومت جس طرح کے کام کرتی ہے اور جو ان کا طریقہ واردات ہے اس میں عین ممکن ہے کہ اج یہ ججز کی ا جو چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کی عمر کا معاملہ ہے اس کو بھی یہ ٹیبل کر دیں میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات کے تناظر میں پاکستان کے لیے یہ انتہائی خراب بات ہوگی خطرناک بات ہوگی اور ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چیف جسٹس اف پاکستان کو اس سلسلے میں بہت واضح طور پر اپنا موقف بیان کرنا چاہیے تھا قوم کے سامنے اور حکومت کو بھی بتا دینا چاہیے تھا کہ یہ چیز درست نہیں ہے اور اس کے نتیجے میں مزید افر تفری اور انتشار پھیلے گا ویسے بھی پہلے پودے پر ا جائیں اور پھر ایکسٹینشن حاصل کر لیں اور یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ حکومت اور سپریم کورٹ کے معاملات وہ کیا ہیں پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بھی جھجک ہوتی تھی ایک تو اب تو کھلم کھلا یہ بات ہو رہی ہوتی ہے کہ کچھ ججز حکومت کے ساتھ ہیں کچھ اپوزیشن کے ساتھ ہیں
جب اس حد تک بات آگے چلی جائے تو ملک کی عدالتی نظام پر کس کا اعتبار رہے گا جب چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جسٹسز کے بارے میں یہ پتہ چل جائے کہ یہ اس کا ادمی ہے اور وہ اس کا ادمی ہے اور یہ تاثر عام ہو جائے اور تاثری نہ ہو بعض فیصلے بھی یہ بولتے ہوئے نظر اتے ہوں تو اس کے نتیجے میں تو پھر پورا عدالت ہی نظام اس کے اوپر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا ہے اس لیے جو بھی ہے نظام تو یہی ہے فی الحال تو جب یہ نظام موجود ہے تو پھر جو اس نظام میں موجود لوگ ہیں ان کی ذمہ داری بنتی ہے نا کہ اس پوائنٹ اف ٹائم پہ وہ آگے بڑھے میں اج بھی توقع رکھتا ہوں کہ چیف جسٹس اف پاکستان سامنے ائیں گے اور اپنا موقف قوم کے سامنے پیش کریں گے کہ نہ مجھے ایکسٹینشن چاہیے اور نہ یہ وہ وقت ہے کہ جس میں ججز کی عمر کو بڑھایا جائے اسی طرح ججز کی تعداد میں اضافہ پہلے بھی موضوع رہا ہے لیکن اس خاص موقع کے اوپر جب لوگ نمبر گنتے ہوں سپریم کورٹ کے ججز کے کہ وہ اس کی طرف ہے اور وہ اس کی طرف اگر حکومت یہ چاہتی ہے کہ اپنی پسند کے ججز سپریم کورٹ میں انڈکٹ کر دیں اور اپنی مرضی کے فیصلے حاصل کر لے تو ظاہر ہے اس سے بڑھ کر بدقسمتی کوئی نہیں ہوگی اس لیے اس مسئلے کو حکومت کو نہیں چھیڑنا چاہیے اور ہم بہت پوری قوم دیکھ رہی ہے کہ کون سی پارٹی کا موقف اختیار کرتی ہے اگر تو یہ مسئلہ ہے کہ لوگوں کو دھمکایا جا رہا ہے ڈرایا جا رہا ہے تو اس کو سیریس طریقے سے اس کا نوٹس لینا چاہیے میں سلمان اکرم راجہ کے ان بیانات پر نوٹس لینے کا مطالبہ کرتا ہوں کہ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے ممبران کو ان کے گھر والوں کو اہل خانہ کو ڈرایا اور دھمکایا جا رہا ہے اگر تو ان کی یہ بات غلط ہے تو بھی سامنے ا جائے اور اگر ان کی یہ بات صحیح ہے تو اس سے بڑھ کر بدنصیبی کیا ہو سکتی ہے فاشزم کیا ہو سکتا ہے اس سے بڑھ کر کہ آپ اپنی مرضی کا فیصلہ اور اپنی مرضی کی ترمیم کروانے کے لیے پارلیمنٹ کے ممبران کے ساتھ یہ سلوک کریں اور ان کے گھر والوں کے ساتھ یہ تو ناقابل قبول چیز ہے اور کتنا جمہوریت کو پامال کیا جائے گا ایک طرف میثاق پارلیمنٹ کی بات کرتی ہیں یہ پارٹیاں اور دوسری طرف حکومت اپنی مرضی کی ترمیم کرنے کے لیے اس طرح کے اگر ہیپنڈے استعمال کرتی ہے تو اس سے بڑھ کر خراب بات کیا ہو سکتی ہے لہذا اس کا نوٹس بھی لیا جائے اس کی انکوائری بھی کی جائے اور ایسی آئینی ترمیم اگر ہو بھی جائے گی تو اس کی کیا حیثیت ہوگی پاکستانی قوم کی نگاہ میں خود آئین کو بے وقت کرنے والا یہ عمل ہے آئین ایک ایسا ڈاکومنٹ ہے جس کے اوپر قوم متفق ہے ہو سکتی ہے یہ ایک بنیادی ڈاکومنٹ ہے آپ اسی کو بے توقیر کر دیں آپ اسی پہ سے جو ہے وہ سپاہی سوالات اٹھانا شروع کر دیں تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ پاکستان میں پھر بچے گا کیا اس لیے اس کو سیریس لینا چاہیے اور حکومت کو ایسے کسی بھی عمل سے باز انا چاہیے اس وقت جو صورتحال ہمارے ملک کے دو صوبوں میں خاص طور پر ہے اور تیسرے اور چوتھے بلکہ اب تو پورے ملک میں ہی یعنی ایک طرف انسرجنسیز ہیں جو آپ کو کے پی میں بھی نظر اتی ہیں اور بلوچستان میں بھی وہ حالات نظر ا رہے ہیں کہ جس میں پاکستان کی بقا پر سوال اٹھانا لوگوں نے شروع کر دیا ہے اللہ معاف کرے اور دوسری طرف سندھ میں جو کچے کا علاقہ ہے اس پہ کچے کے ڈاکو اور پکے کے ڈاکوؤں کی سرپرستی میں کام کر رہے ہیں اسی طرح پنجاب کا ایک بڑا علاقہ اور ابھی پچھلے عرصے میں تو رحیم یار خان جیسے علاقے میں پنجاب پولیس پر حملہ ہو گیا اور 12 لوگ شہید ہو گئے اور ابن زخمی ہو گئے تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ کیا صورتحال ہے جو جنوبی ازل میں خیبر پختون خواہ کے پولیس نے جو بائیکاٹ کیا تھانوں کا یہ بہت سگنیفیکنٹ ہے میں اس لحاظ سے لکی مروت کے اس امن جرگے کو ایپریشییٹ کرتا ہوں کہ جس نے کچھ مطالبات اپنے ا حکومت کے ساتھ بات کر کے اور مجموعی طور پر اب منوا لیے ہیں لیکن یہ ایک عارضی مسئلہ ہے اس مسئلے کو اس کے وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے پاکستان میں بدامنی کے یہ حالات امریکہ نوازی کے نتیجے میں ہوئی تھی پیدا ہوئے اج سے 23 سال پہلے جب مشرف نے پورے پاکستان کو سٹیک میں لگا دیا تھا امریکہ کی محبت میں اور ہم سے یہ کہا تھا ڈالر ملیں گے وہ ڈالر تو پتہ نہیں کس کو ملے لیکن پاکستان کی معیشت ڈیڑھ سو سے پونےد اور 200 ڈالر تک ارب ڈالر تک تباہ ہو گئی برباد ہو گئی اور اج تک ہم بھگت رہے ہیں اسی طرح سے ایک لاکھ کے قریب لوگ ہیں جو شہید ہو چکے ہیں جس میں فوجی افسران ہیں پولیس کے لوگ ہیں سویلینز ہیں
لہذا اس مسئلے سے نکلنے کی ضرورت ہے ہر صورت میں اس میں عقلمندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اس میں کسی کی رد کا مسئلہ نہیں ہے پاکستان کا مسئلہ ہے اس میں ہمارے اداروں کو بھی اور حکومت کو بھی اور اپوزیشن کو بھی ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور ایک وسیع تر مشاورت فوری طور پر اس وقت کی ضرورت ہے یہ جو مطالبہ ہے کہ وہاں پولیس کو ایمپاور کیا جائے اور فوج کو وہاں سے ہٹایا جائے اصل میں ہوتا یہ ہے کہ جب یہ کام کیے جا رہے ہوتے ہیں تو اس وقت جو ہے وہ نہیں سوچا جا رہا ہوتا کہ اس کے آگے چل کر کیا ریپرکشنز ہوں گے اب یہ جو ایک ریگولیشن ہے ایکشن ان ایڈ اف سول پاور ریگولیشن 2010 میں اصف علی زرداری صاحب صدر مملکت سے انہوں نے یہ جاری کیا تھا اور اس کے نتیجے میں فوج جو فاٹا کے علاقے تھے اس میں بلائی گئی تھی پھر جب یہ فاٹا کے علاقے مرج ہو گئے نیولی مج ڈسٹرکٹ جسے کہتے ہیں ایل ایم ڈی یہ جو مل ڈسٹرکٹ جب ہوئے 2018 میں 25 ترمیم کے بعد تو اس وقت عمران خان صاحب نے عارف علوی صاحب کے دستخطوں سے اس ریگولیشن کو اس ریگولیشن کا نام ہے ایکشن ان ایڈ اف سول پاور ریگولیشن ہے یہ یہ جو ہے وہ علوی صاحب کے سائن سے دوبارہ سے ہوئی اور فوج کو وہاں پر بلایا گیا اب اس وقت اگر یہ مطالبہ ہے کہ فوج کو وہاں سے چلے جانا چاہیے تو یہ کسی کی ناک کا مسئلہ نہیں ہے یہ حالات اور واقعات ہیں خود ہمارے اداروں کو بھی یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ مطالبہ پاکستانی قوم کیوں کر رہی ہے قوم کا مطالبہ کیسے بنی ہے چند لوگوں کا مطالبہ تو ہو سکتا تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی پرابلمز ہیں نا ان پرابلمز پر ڈنڈے کے ذریعے سے اس کو ایڈریس نہیں کیا جائے گا یہ پاکستان ہے پاکستان کی قوم ہے پاکستان کی فوج ہے پاکستان کی پولیس ہے ہم سب ایک ہونے چاہیے ایک پیج پر ہونے چاہیے لیکن جب آئینی حدود سے لوگ تجاوز کرتے ہیں اور جب کرپشن اور لوٹ مار ہر سطح پر پھیلنے لگتی ہے جب اعتبار ختم ہو جاتا ہے اور لوگ ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں تو صرف یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ایک ادمی کا تو کام ہی یہ ہو گیا ہے لوگوں کا کہ وہ شک کرتے ہیں شک کرتے ہیں اگر دھواں اٹھ رہا ہے تو پیچھے ہاتھ تو ہوگی نا کوئی رائی ہوتی ہے تو پہاڑ بنتا ہے کوئی پر ہوتا ہے تو کوا نظر اتا ہے لوگوں کو اس لیے خود ہمارے اداروں کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ان کے کنڈکٹ میں کہاں کہاں خرابی موجود ہے کیوں لوگ اب کرپشن کے الزامات لگاتے ہیں یہ سمگلنگ جو ہوتی ہے پورے بلوچستان کے بارڈر سے وہ کیسے ہو سکتی ہے ایف سی کی مرضی کے بغیر ایکشن ہونا چاہیے نا آپ پہلے ارمی کی کورٹ سے شروع کریں اور پھر اس کے نتیجے میں ایک اعتبار قائم کریں لوگ خود بخود سمجھ جائیں گے کہ مسئلہ آپ جو ہے ویزالو ہونے لگا ہے اسی طرح اگر لوگوں کو خوف یہ ہو کہ حالات بگڑیں اور اس کے بعد جو منرلز ہیں جو ماربلز ہیں جو الیکس ہیں جو گرینائٹ ہے اور جو کرونائٹ ہے اور جو تامہ ہے ان سب کے اوپر سب کی نظر ہونا شروع ہو گئی ہے تو یہ بہت بڑا ٹرسٹ ڈیفیسٹ ہے اس کو ایڈریس کرنا پڑے گا اور ریت میں منہ ڈال کر آپ خطرات سے بچ نہیں سکتے شترملک کی طرح آپ کو حالات کو فیس کرنا پڑے گا اور یہ بات اچھی لگے یا بری اس مسئلے کو ایڈریس کیے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا اس لیے کرپشن کی ہر سطح پر چاہے وہ بیوروکریسی میں ہو چاہے وہ اداروں میں ہو چاہے وہ حکومت میں ہو اس کو ایڈریس کرنا پڑے گا اس کو ختم کرنا پڑے گا اور جو جتنا با اختیار ہے جتنا طاقتور ہے اس کی اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری ہے اسی طرح بلوچستان میں جس طرح سے حالات کو موضوع بنا کر پھر انسرجنسیز شروع ہو جاتی ہیں ہمارا دشمن بھارت اتنا طاقتور کیسے ہوا ہے جو بلوچستان کے معاملات میں دخیل ہوتا ہے یہ بھی ہماری حرکتوں کی وجہ سے ہوا نا جب آپ نے اپنے دوست پول افغانستان کو اپنا دشمن بنا لیا تھا جب آپ نے امریکہ کا ساتھ دیا تھا اور دشمن حکومت ا کر بیٹھ گئی تھی تو اس وقت بھارتی جو سفارت خانے تھے وہ را کے اڈے تھے جو پاکستان بن سرجنسیز کرتے تھے اس وقت بلیک واٹر ریکارڈ پر موجود ہے کہ اندر دندناتی پھر رہی تھی سی ائی اے ایم ائی سکس کون سی ایجنسی تھی کہ جو ہمارے یہاں پر ہمارے پورے معاشرے کو تباہ و برباد نہیں کر رہی تھی اور اس کے اثرات اج تک محسوس کیے جاتے ہیں اس لیے ایک وسیع تر قومی مشاورت کے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا بلوچستان کا مسئلہ ہو یا قبائل کا یا پورے خیبر پختون خواہ کا یا پورے پاکستان کی سالمیت کا
یا قبائل کا یا پورے خیبر پختونخواہ کا یا پورے پاکستان کی سالمیت کا اس پر مشاورت ہونی چاہیے اس میں فوج بھی اس میں قوم بھی اس میں اپوزیشن بھی اس میں حکومت بھی اور سب سے زیادہ ذمہ داری یہ حکومت کی کہ وہ سب لوگوں کو ایک پیش پر لانے کی کوشش کریں بٹھائیں اور یہ جو وقتی فائدہ حاصل کرنے کے لیے تقسیم در تقسیم کا عمل ہے اس کو ختم ہونا چاہیے میں اس موقع پر یہ بھی مطالبہ کرتا ہوں کہ اس وقت پاکستان میں جو پیٹرولیم کی قیمت ہے اس میں فوری طور پر 15 ستمبر کو تو کم از کم کم از کم دو طرح سے کمی ہونی چاہیے ایک تو جو پروڈائل کی قیمت عالمی مارکیٹ میں فی بیرل کم ہو رہی ہے اور یہ 15 16 فیصد تقریبا کمی کی طرف گئی ہے پچھلے عرصے میں تو وہ ریفلیکشن پاکستان کے پیٹرولیم کی قیمت میں نہیں ایا تو جو اوریجنل قیمت ہے جو لیوی کے علاوہ ہے وہ کم از کم یہ 15 ستمبر کو 20 سے 25 روپے کم ہونی چاہیے اور اسی طرح اگر یہ 60 روپے والی جو لیوی ہے کہ آپ نے زبردستی ایک امپوز کر دیا ہے یہ ختم ہو جائے تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس مرحلے پر اگر پیٹرولیم کی قیمت پونے دو سو روپے ہو جائے اور گریجولی مزید اس کو کم کیا جائے تو کتنا ایک اعتماد ملے گا پاکستان کی معیشت کو اور مہنگائی کو کتنا آپ کنٹرول کر سکیں گے اور کس طرح سے جو ہے پاکستان کی معیشت آگے بڑھنا شروع ہو جائے گی یہ کہتے ہیں کہ ہم لیوی لگا کر ٹیکس وصول کر رہے ہیں بھائی جب آپ ٹیکس وصول کرتے ہیں اور معاشی ایکٹیوٹی نہیں ہوتی تو آپ کے اس کے ٹیکس کے وصول کرنے کا فائدہ کیا ہے آپ اگر قیمت کم کریں گے تو خود بخود آپ کو ٹیکس زیادہ ملنا شروع ہو جائیں گے جو آپ کی جو اکنامک گروتھ ہے جب آگے بڑھنا شروع ہو گی تو آپ وقتی فائدہ حاصل کرنے کے لیے معیشت کو تباہ کر رہے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ چونکہ ائی ایم ایف کے اداب پورے کر رہے ہیں یہ جو دو پرسنٹ سود مزید کم ہوا ہے ٹھیک ہے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن یہ دو پرسنٹ کیوں ہے یہ اس وقت بھی پاکستان کی معیشت میں اول تو سود کو ہونا ہی نہیں چاہیے لیکن اس وقت بھی پاکستان کی معیشت میں اس کی گنجائش موجود ہے کہ آپ 10 پرسنٹ پہ فوری طور پر لا سکتے ہیں دو تین مہینے میں یہ کام کر سکتے ہیں اور یہ 10 پرسنٹ پہ ا جائے آپ کے چار پانچ ہزار ارب روپے گورنمنٹ کے بچ جائیں گے اور اس لیے بچ جائیں گے کہ آپ کا جو اندرونی قرضہ ہے وہ 43 44 ہزار ارب روپے کا ہے اور اس اندرونی قرضے کا سود ہی ساڑھے اٹھ ہزار ارب روپے جو اس بجٹ میں آپ کو دینا ہے اگر آپ یہ انٹرسٹ ریٹ کم کر دیتے ہیں تو خود بخودچار ہزار روپے بچیں گے اور 4 ہزار ارب روپے بچنے کا مطلب ہے کہ آپ بجلی کی قیمت اس کی لاگت کے مطابق کر سکتے ہیں اور یہ ہمارا جنم مطالبہ ہے تو ایک قدم سے آپ کہتے ہیں پھر کیا بینک کیا کریں گے تو بینک انہوں نے تو جتنی لوٹ مار کرنی تھی کر لی آپ کے ساتھ مل کر حکومت کے ساتھ مل کر اس وقت جو لوٹ مار پاکستان کے بینک کر رہے ہیں وہ تباہی ہے اور پاکستان کی معیشت تباہ ہو رہی ہے تاجر پریشان سند کار پریشان انڈسٹریز بند ہو رہی ہیں روزگار تباہ ہو رہا ہے اور عیاشی کون کر رہے ہیں بینک کے مالکان بدترین جو سستائی نظام معاشی ہو سکتا ہے وہ اس وقت پاکستان میں ہے چند لوگوں کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے یا تو ائی پی پیز کی کپیسٹی پیمنٹ کے نام پر ان لوگوں کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے یا بینکوں کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے اور یہ ایک ملی بھگت ہے ایک پورا نیکسس ایک شیطانی قسم کا اتحاد ہے جس نے پاکستان کی معیشت کو چند لوگ کھا رہے ہیں اور پورا پاکستان کے 25 کروڑ لوگ اس عذاب میں مبتلا ہیں نام ائی ایم ایف کر لیتے ہیں اور ائی ایم ایف ائی ایم ایف بھی جو مطالبات کرتا ہے جس پر وہ انفورس کرتے ہیں وہ عوام سے وصول کیے جانے والے پیسے ہیں جاگیرداروں کے لیے فورس نہیں کرتے ائی پی پیز سے نیگوشییٹ کرنے کے لیے انفورس نہیں کرتے اور اب تو حکومت خود جو یہ بات کرتی تھی کہ ہم ائی پی پی سے بات نہیں کر سکتے اب جب نیگوسییشن شروع ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں کچھ ائی پی پیز نے اپنے آپ کو پاکستان روپیز میں معاملات کرنے اور اپنے ریٹ کو کم کرنے کی بات کی ہے تو ہم اس کو اپریشیٹ کرتے ہیں اگر لبرٹی یہ شریعہ چشی صاحب نے اس کام کو کیا ہے تو میں اس کو ایپریشییٹ کرنا چاہیے لیکن اب باقیوں کو بھی تو سامنے انا چاہیے یہ سارے لوگ یہ منشا گروپ کہاں ہیں یہ داؤد گروپ کہاں ہے یہ گل احمد والوں کی بات بھی کل ہم نے سنی ہے کہ انہوں نے بھی کہا ہے کہ ہم جو ہے وہ بیگو تو میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں موجود جتنی ائی پی پیز ہیں اور ان ائی پی پیز میں سول بھی ہیں اور ملٹری اداروں کی بھی ہے جس کا جتنا بھی سائز ہے اس سائز میں وہ کچھ نہیں کر سکتے علامتی طور پر وڈرا کریں کچھ چیزوں کو
جس کا جتنا بھی سائز ہے اس سائز میں وہ کچھ نہیں کر سکتے علامتی طور پر وڈرا کریں کچھ چیزوں کو اس سے پوری قوم کو ایک اعتماد ملے گا جواب یہ کام کریں گے تو خود بخود آپ چائنہ کی جو ائی پی پیز ہیں ان سے بات کر سکتے ہیں اور اس بات میں ایک وزن پیدا ہوگا تو اس کا براہ راست اثر پاکستان کی معیشت میں پڑے گا بہترین سمت میں ہم چلنا شروع کر دیں گے اس وقت جو بات کر رہی ہیں حکومت کے ہم نے سنگل ڈجٹ میں ہم انفلیشن کو لے ائیں سنگل ڈجٹمنٹ انفلیشن کو اگر آپ لے ائیں تو سود کی شرح 10 پرسنٹ کیوں نہیں کر رہے اس لیے کہ جب آپ نے بڑا ہی تو کہا تھا انفلیشن کی وجہ سے سوکھ بڑھانا پڑتا ہے اب انفلیشن کم ہو گیا تو سود کیوں نہیں کم ہو رہا صرف دو پرسنٹ سے کیا ہوگا لہذا ایک طرف پیٹرولیم کی لیری ختم کریں قیمت میں سگنیفیکنٹ کمی کریں دوسری طرف انٹرسٹ ریٹ کو تیزی سے نیچے کی طرف لے کر ائیں بینک کا ریزرو ریشو بڑھا دیں تاکہ وہ کمپنسیٹ ہو سکے اور اسی طرح سے ائی پی پیز کے ساتھ ریگوشییشن کا یہ عمل تیز رفتاری سے کیا جائے تو اس وقت پاکستان کی معیشت بالکل وی ٹائپ گروتھ کی طرح کے نیچے جاتی ہوئی معیشت ایک دم سے اوپر رک سکتی ہے ہو سکتا ہے یہ اس وقت لیکن اگر آپ نہیں کر رہے اس سمت میں نہیں جا رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ خود ملے ہوئے ہیں آپ کے اپنے سٹیک سے ویسٹڈ انٹرسٹ ہیں اور اس کے نتیجے میں پاکستان کے عوام یہ عذاب بھگت رہے ہیں اس لیے ان تمام اقدامات کو فوری طور پر پورے کار لایا جائے میں ایک مرتبہ پھر یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ حکومت ججز کی عمر اور ان کی تعداد کے حوالے سے اس بل سے باز رہے اور پاکستان میں ایک نیا کیاس نہ پھیلائے۔
جمہوری ازادیاں سب کو ملنی چاہیے سب کو اجازت ہونی چاہیے کہ وہ آئینی اور جمہوری فریم ورک پہ رہ کر پاکستان میں جلسہ کر سکے جلوس نکال سکے احتجاج کر سکے یہ آپ ہمیں پاکستان کا آئین دیتا ہے اور کوئی حکومت اس بات کا اختیار نہیں رکھتی کہ اس آئینی حق کو وہ سیل کر سکے بہت شکریہ
سوال جواب
بات چیت کرنی پڑے گی اپنی ضد انا اور یہ جو چھوٹی چھوٹی اب باتیں ہیں نا ان کو ان جب ملک کی سلامتی کا معاملہ ہے تو کوئی چیز اس سے بڑھ کر نہیں ہوگی نہ کسی جرنل کی چھڑی اس سے بڑی ہے نہ کسی حکومت کی رڈ اس سے بڑی ہے نہ کسی اپوزیشن کی نآپ اس سے بڑی پاکستان سب کے لیے سب سے بڑا ہونا چاہیے اور جب پاکستان کی بات ائے تو پھر افغانستان سے بھی بات ہو سکتی ہے اور پاکستان کے اندر پاکستانیوں سے کیوں نہیں بات ہو سکتی تو گریٹر ڈائیلاگ ہونا چاہیے اور سب سے زیادہ جس کے پاس طاقت ہے اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری ہے ذمہ داری کا ثبوت دیں گے تو یہ مسئلہ انشاءاللہ ریزالو ہو جائے گا اور اگر آپ خود اپنی صفوں میں انتشار رکھیں گے تو باہر کی قوتوں کو موقع ملے گا اور خدانخواستہ پاکستان کے ساتھ جو ہے وہ کچھ اور سلوک بھی ہو سکتا ہے نہیں میرا خیال ہے کہ اگر امین گنڈا پور نے یہ اعلان کیا کہ ہم بات کریں گے ان کو بھی یہ چاہیے تھا کہ اس سلسلے میں اگر یہ پیشکش وہ کرتے کہ میں اس میں سہولت کاری کے لیے تیار ہوں تو تمام پولیٹیکل ڈفرنسز کے باوجود وفاقی حکومت بیک فٹ پہ جاتی ہے یہ جو کریڈٹ لینے والا مسئلہ ہے نا کہ میں یہ بات کر دوں ہوگا تو نہیں لیکن میں ہیرو بن جاؤں گا باقی زیرو بن جائیں گے وہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے علی امین گنڈا پور اگر اس میں سیریس ہے ہم معاونت کرنے کے لیے تیار ہیں کہ اگر افغانستان سے بات چیت ہو سکتی ہے تو وفاقی حکومت بھی ان بورڈ ائے صوبائی حکومت کو بھی ان بورڈ لے ظاہر ہے وہ کے پی ہے اور اسی طرح سے جو لوگ بھی وہاں پر اپنا کوئی انفلوئنس رکھتے ہیں علماء کرام ہیں جماعت اسلامی ہیں آپ سب کو ان بورڈ لے سکتے ہیں اور ایک عمل شروع کر سکتے ہیں اس لیے کہ ہمیں افورڈ نہیں کر سکتے کہ پڑوسی اپس میں لڑیں اور سب کچھ دفع ہو جائے اسی طرح سے جو انٹرنل ایشوز ہیں ان سب کے اوپر بھی جس طرح ایک لکی مروت میں جرگہ کامیاب ہو سکتا ہے بنو میں کامیاب ہو سکتا ہے تو پورے پاکستان میں جرگہ کیوں نہیں کامیاب ہو سکتا ٹھیک ہے ملاقات ملاقاتیں تو ہوتی رہتی ہیں نا پہلے بھی ہم کرتے رہے ہیں ہم نے تو واضح طور پہ کہا ہے کہ ہم مقاصد کے اندر کہ ہم اہنگ ہیں اور اس کے پاس ظاہر ہے کہ اپنا اپنا کام اب اپنی پلیٹ فارم کے اوپر لیکن آپ اس میں کیا مسئلہ ہے کہ پولیٹیکل لوگوں میں اپس میں ملاقات ہونی چاہیے ہم نے تو حکومت سے بھی مذاکرات کی ہے نجس حکومت کو تو ہم مانتے ہیں یا 47 والی ہے لیکن کی ہے تو مذاکرات ابھی بھی ائیں گے تو بات کریں گے اناؤنس سے تو یہ تو کوئی ایسا مسئلہ ہے
اس میں دو باتیں ایک تو یہ کہ گندم کے کیس میں اور اس میں ایک فرق یہ ہے کہ پیٹرولیم کی بہرحال ابت ہے پاکستان میں اول تو اس کو دیکھنا چاہیے کہ اگر غلط طریقے سے کوئی چیز امپورٹ ہو رہی ہے چاہے وہ ار ایل این جی ہو چاہے وہ پیٹرولیم غلط تو اس میں غلطیاں ہوتی ہیں ایک کرپشن ہوتی ہے اور ایک ناہلی ہوتی ہے مثلا اور صحیح ٹائم پر یہ مڈنگ کر کے آپ اس کو امپورٹ کر لیں تو آپ سینکڑوں یعنی عرب روپے بچا سکتے ہیں پاکستان کے صرف اپنی نائلی کی وجہ سے دو دو مہینے میں کئی کئی سو ارب روپے کا نقصان پاکستان کو یہ لوگ کرتے ہیں پھر اس میں ظاہر ہے کرپشن ایک الگ چیز ہے یہی ائل کا معاملہ ہے تو اس لیے اگر کوئی ایسی چیز موجود ہے اس کی ڈیٹیل میں میں اج دیکھوں گا اس کو انشاءاللہ آپ نے توجہ دلائی ہے تو اس کو فوری طور پر جو ہے وہ ایڈریس بھی ہونا چاہیے اور جو بھی اس کے ذمہ دار ہیں ان کو پکڑنا چاہیے اور دوسری بات یہ ہے کہ جو پاکستان میں ائل کے ریزروز ہیں ان کی ایکسپلریشن سے کس نے روکا ہے اس میں اتنی سستی نہیں ہونی چاہیے اور تیسری بات یہ ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن یہ کیوں پینٹنگ ہے 18 بلین ڈالر کی پینلٹی حاصل کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہوئے ہیں ائی پی پیز سے جب بات کرنے کی ہم کہہ رہے تھے تو یہ کہہ رہے تھے کہ وہ انٹرنیشنل بورڈ میں چلی جائیں گی اور ہم پر پینلٹی لگ جائے گی یعنی وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں پہ تو یہ بات کر رہے ہیں لیکن 18 بلین ڈالر ریکوڈکٹری پینلٹی چھ بلین ڈالر کی سی اس نے ہمیں کتنا پریشان کیا تو آپ یہ بتائیں اور بہرحال اؤٹ اف کورٹ سیٹل کرنا پڑا بات یہ ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن ہمارے لیے اس وقت بہت سینکشن ہے بہت ضروری ہے اور امریکی دباؤ کا یہ نام لیتے ہیں تو دنیا میں ایران روس سے تجارت کر رہا ہے بھارت سے کر رہا ہے چائنہ سے کر رہا ہے تو کچھ بھی نہیں ہو رہا پاکستان سے کرے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ امریکہ سے زیادہ امریکی غلاموں کا مسئلہ ہے اور اس کی غلامی کا مسئلہ ہے
دیکھیں میں اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ معاملات تو اس جگہ پہ نہیں انا چاہیے پھر جس کے پاس کسی کے پاس بھی کچھ نہ بچے اور یہ ذمہ داری جو ہے وہ پاکستان کے کی حکومت کی سب سے زیادہ ہے اور ذات میں اپوزیشن کی بھئی وہ مذاکرات کر رہے تھے تبھی تو انہوں نے روکے ہیں نا کوئی خان صاحب مذاکرات کر رہے ہیں نا اسی لیے تو انہوں نے کہا اب نہیں کریں اس کا مطلب ہے کہ چینلز موجود تھے بات چیت ہو رہی تھی کہ ان جنرل کو بحال رہنا چاہیے جو بھی بات چیت ان کی ہو رہی ہے ملک کے مفاد میں بات چیت کا عمل تو جاری ہونا چاہیے نا بھئی ہم پاکستانی کے لوگ ہیں نا اس میں بات چیت کرنے میں کیا مسئلہ ہے لہذا ایسے اقدامات جس میں اپوزیشن کو یہ کہنا پڑے کہ ہم بات چیت بند کر رہے ہیں تو یہ تو حکومت کی سب سے بڑی ناکامی ہوتی ہے
بہت افسوسناک ہے میں اسی سے شروع کرتا ہوں علی امین گنڈاپور صاحب کو اس پوری قوم سے معافی مانگنی چاہیے اصل میں اسے ساتھیوں کو برا کہہ کر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ نے ساتھیوں کے خلاف بات کی ہے یہ جو لینگویج کوئی نیشنل لیڈر یا کسی قومی جماعت کا لیڈر جب وہ زبان استعمال کرتا ہے تو وہ پوری کروڑوں بچوں کی تربیت کر رہا ہوتا ہے اس کا پیٹرن سیٹ کر رہا ہوتا ہے تو یہ بہت ذمہ داری کا کام ہے س آپ کے اندر بہت جذبات ہوں گے اور اس کا اظہار کا موقع آپ کو پتہ نہیں کہاں کہاں کیا کیا ملتا ہوگا وہ آپ کریں لیکن آپ جب قوم کے سامنے کھڑے ہوں تو کم از کم ہمیں ہم بھی سمجھتے ہیں کبھی کبھی ہم سے بھی غلطی ہوتی ہے کوئی سخت بات ہوتی ہے ہمارے ہاں ریالائزیشن ہوتی ہے کہ نہیں یہ جملہ اس طرح نہیں کہنا چاہیے تھا ہم الوجوع کرتے ہیں ہم تو اتنے محتاط ہوتے ہیں لیکن ایک وزیراعلی کی سطح کا ادمی اس طرح کے جملے استعمال کرتا ہے تو وہ صرف صحافیوں کی توہین نہیں کی انہوں نے بلکہ ایک طرح سے پوری پاکستانی قوم کو ریپریزنٹ کر کے ان کی توہین کی ہے تو انہیں صرف رجوع کرنا چاہیے معافی مانگنی چاہیے البتہ وہ گریونسز بھی ایڈریس ہونی چاہیے جس کی وجہ سے بندے کو اس طرح سے بولنا پڑتا ہے وہ جسٹیفائی نہیں ہو سکتا جسٹیفائی نہیں ہو سکتی ان کی بات لیکن بہرحال بندہ پھر اس کو پھر اظہار جس کو جس طرح کرنا اتا ہے جس کی جس طرح کی تربیت ہوتی ہے وہ اس طرح کر دیتا ہے ا دوسری پہلی بات یہ بھی دیا رحیم یار خان میں دیکھیں جو اس وقت پاکستان میں جو بھی الیکشن ہو رہے ہیں یہ 2024 کے جو اٹھ فروری کے الیکشن تھے اس نے اپنا اعتبار قائم ہی نہیں کیا تو اب کسی بھی ضمنی انتخاب کا کیا اعتبار ہے اس لیے میں اس کی تفصیل میں کیا جاؤں جس میں ظاہر ہے کہ نون اور بی بی نے شاید مشترکہ ہی کینڈیڈیٹ تھے ان کے وہ اور پھر جو کچھ ہوتا ہے مجھے نہیں پتہ کتنی تفصیل سے ہوا ہے لیکن جن چیزوں کے بلدیاتی انتخاب کراچی اور پھر ا عام انتخابات میں ہم شاہد ہیں اس کے بعد تو اس سیٹ آپ کے اندر اور اس الیکشن کمیشن کی موجودگی میں جو بھی انتخاب ہے اس کی کوئی کریڈیبلٹی ہے ہی نہیں سر میں نے تو آپ کو صحافیوں سے نہیں صحافیوں سے کیوں ہو گئے دیکھیں بیاسیت مجموعی چونکہ پاکستان میں جب اس طرح کی سچویشن پیدا ہوتی ہے نا تو ہر شعبے میں ایک ڈیکلائن ہے اور یہ افسوسناک ہے خود اہل صحافت کو بھی اپنے صفوں میں یہ بات دیکھنی ہوگی کہ یہ صحافی اور اینکر کیوں پولرائز پولرائزیشن کا شکار ہو رہا ہے ایک نون لیگ کا اینکر کہلائے اور ایک پی ٹی ائی کا اینکر کہلائے تو وہ اینکر تو نہیں ہوا وہ تو پارٹی ممبر ہوا اسی طرح سوشل میڈیا میں بھی آپ کو ایک واضح تقسیم نظر اتی ہے باقاعدہ پارٹیوں کا ایک وہ نظر اتا ہے تو صحافت وہ خود بھی ایڈریس کرنا پڑے گا ان معاملات کو کہ ان کے اپنی بھی کچھ ایسی ریگولیشنز ہونی چاہیے جس میں لوگ اس کا خیال رکھیں ورنہ وہ صحافی ڈیکلیئر ہی نہ ہو جو اس طرح کسی پارٹی کا نمائندہ بن جائے اس پر جی یار سوچنا پڑے گا جب مدت پوری ہوگی تو ہم آپ کے سامنے پورا پلان رکھیں گے انشاءاللہ ہم پیچھا نہیں چھوڑیں گے ان کا پہلی بات تو یہ دوسری بات یہ ہے کہ یہ انہوں نے کچھ اقدامات کیے ہیں جو انہوں نے بھی سوال کیا تھا نا کہ 14 14 روپے کم کیے اب میں اس کو کیسے اپریشییٹ کروں جب پورا پاکستان کہتا ہے کہ آپ نے ایک صوبے کے لیے کیوں کیا خود ہی تقسیم پیدا کرتے ہیں نا جبکہ آپ کی دو تین صوبوں میں حکومت ہے اگر پیپلز پارٹی ہے وہ بھی آپ کی اتحادی ہے بلوچستان میں بھی آپ کی حکومت ہے اور پنجاب میں بھی آپ کی حکومت ہے اور وفاق میں بھی چار حکومتیں آپ کے پاس ہیں تو آپ ان چار حکومتوں کا کمبائن کوئی کام کرتے ہیں نا تو اس کے نتیجے میں یکجہتی بھی پیدا ہوتی ہے آپ خود ہی تقسیم پیدا کر دیتے ہیں اور ایک ریلیف جو محدود پیمانے پہ ملا اس کو بھی آپ نے خراب کر دیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح 14 14 روپے کے ریلیف سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بنیادی ٹیرف میں کمی کرنی چاہیے اور اس طرح سے جو ہے وہ بات آگے بڑھنی چاہیے تو اس لیے ہم حکومت کے صحیح مطالبہ ہی کر رہے ہیں کہ وہ اب ہو سکتا ہے یہ ساری چیزیں جو میں نے آپ کو اج پوری پریس کانفرنس سے بتائی ہیں اس میں سے کوئی چیز بھی ناقابل عمل نہیں ہے شروع کریں چیزیں بہتر ہو جائیں گی ۔
پی ٹی آئی کے جلسہ پر شیلنگ اس لیے کی گئی کہ جلسے کا وقت شام ۷ بجے تک تھا اس پر آپ کیا کہیں گے؟
یہ جمہوری اقدامات ہی نہیں ہے تو فسطائیت پر مبنی اقدامات ہیں اور کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے یہ کوئی طریقہ ہے کہ آپ جو ہیں وہ گھنٹوں کی بنیاد پر جلسے کی اجازت دیں ۔
یہ کیا طریقہ ہوا کہ سات بجے کے بعد شیلنگ شروع کر دیں گے کوئی تماشہ ہے یہ جو کچھ آپ آج کر رہے ہیں کل آپ کے ساتھ ہوگا پھر آپ چلاتے ہیں یہ کون سا طریقہ ہے ایسے چلتا رہے گا اور ویسے بھی اس جلسہ کو کامیاب کرانے میں پورا کردار حکومت کا ہے یہ تو پارٹیوں کے لیے بہت بڑی چیز ہوتی ہے کہ ان کے اوپر کوئی شیلنگ کر دے اور اس کے نتیجے میں وہ اتنا سا کام جو اتنا بڑا ہو جاتا ہے تو یہ تو انتہائی نالائق ترین سوچ ہوتی ہے جو یہ کام کرواتی ہے اور اس سے خود اپنا ہی نقصان کرتے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں جلسے ، جلوس اور احتجاج کس لیے کرتی ہیں ؟ ظاہر ہے حکومت کو متوجہ کرنے اور عوام میں اپنی مقبولیت اور تشہیر کے لیے کرتی ہیں اب ایسے میں جب حکومت ہی ان کی مشہوری کردے تو اور کیا چاہیے۔
دیکھیں پرفارمنس یعنی پولیس ہے پولیس مثال کے طور پر جب پولیس رشوت زیادہ لیتی ہے امن و امان کنٹرول نہیں کرتی تو لوگ کہتے ہیں کہ یار یہ پولیس لانے کی ضرورت کیا ہے اس کو ختم کریں لیکن ختم تو نہیں کیا جائے گا عدالتوں سے انصاف نہیں مل رہا تو عدالتیں ختم نہیں کی جائیں گی اداروں کو سیاسی وکٹمائزیشن کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے اور ان کا پورا کنڈکٹ آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہیے تو پھر ادارے بنتے بھی ہیں اور وہ چلتے بھی ہیں لیکن نیب کو سیاسی انتقام کے لیے اور معیشت کو تباہ کرنے کے لیے ایک طرح سے استعمال کیا گیا جس سے کچھ حاصل نہیں ہو سکا اور جتنی انہوں نے اپنی بارگین یا بارگین کی اس میں پاکستان کے خزانے میں کچھ نہیں ایا البتہ نقصان اس کے بہت زیادہ ہوئے لہذا وہ غیر موثر ہے
جی وہ تو پرائم منسٹر رہے ہیں اگر وہ یہ بات کہہ رہے ہیں تو بعض بات کو سیریس لینا چاہیے کہ انہوں نے ایسی بات کیوں کہی ہے وہ ایک سمجھدار ادمی ہے شاہد خاقان عباسی صاحب اور انہوں نے اگر اس طرح کی بات کی ہے تو کوئی اس کے بیک گراؤنڈ میں اس کی ایک حیثیت ہوگی نا پارلیمنٹ کی اور ایک اور بات یہ اس پارلیمنٹ کا تمام تر چیزوں کے باوجود کہ ہم کہتے ہیں پارلیمنٹ کا احترام ہونا چاہیے لیکن جس پارلیمنٹ کی ٹو تھرڈ تقریبا یا مور دن 50 پرسنٹ لوگ فارم 47 کی بنیاد پر بیٹھے ہوئے ہوں اب دیکھیں نا اب جو ابھی تک تو وہ ریزرو سیٹ چل رہی ہیں نا وہ کاؤنٹ ہو رہی ہیں نا ریزرو سیٹس تو یہ ریزرو سیٹ جن لوگوں نے حاصل کی ہوئی ہیں خواتین کی ان کی کیا اخلاقی حیثیت ہے کیا قانونی حیثیت ہے کیا جمہوری حیثیت ہے ان کے منہ سے آپ کو جمہوریت اور آئین کی بات کیسی لگتی ہے جو جعلی نمائندگی اپنے پاس رکھ کر اپنے ریٹ بڑھا رہے ہیں جی آخری بتائیں ٹرانسپورٹ کے حوالے سے بات کی آپ نے اسٹوڈنٹ صاحب دیتے ہیں دیکھیں یہ تو پورا ایک مسئلہ ہے تعلیم ہم نے قومی ایجنڈا جو بنایا اس میں ایجوکیشن کو ہم نے سر فہرست رکھا ہے صرف یہ ٹرانسپورٹ میں ہی اسٹوڈنٹس کے ساتھ یہ زیادتی نہیں ہے بلکہ خود جو فیس وصول کی جا رہی ہے اس وقت سرکار نے وہی اب غریب لوگوں کے بس سے تو باہر ہو گئی ہے اور مڈل کلاس لوگ بھی اپنی سروائیول کی جنگ لڑ رہے ہیں اور جو لوگ پرائیویٹ سیکٹر میں ایجوکیشن حاصل کرنے آپ ان کا تو اندازہ کر سکتے ہیں کہ اگر میڈیکل ڈاکٹر پانچ سال میں ڈیڑھ کروڑ روپے دے کر اور ابھی ڈیڑھ کروڑ ہے جب پانچواں سال ہوگا تو وہ دو کروڑ ہو جائیں گے کیونکہ وہ فیس بڑھا دیتے ہیں درمیان میں تو دو کروڑوں میں اگر آپ ڈاکٹر بنائیں گے تو پاکستان میں کتنے لوگ ڈاکٹر بن سکتے ہیں پھر آپ کے پاس کوئی پالیسی موجود نہیں ہے ان کو ریٹین کرنے کی پیرامیڈیکل اسٹاف میں ایک بہت بڑا شارٹ فال ایا ہوا ہے اس وقت اور بہت بڑی تعداد میں جو نرسز ہیں میل اور فیمیل وہ پاکستان سے باہر جا رہے ہیں ٹریننگ کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے ہر چیز اتنی ائی ٹی کے ایجوکیشن انتہائی مہنگی کر دی ہے جس میں ہمارے پاس سب سے زیادہ اسکوپ ہے وہ انتہائی مہنگی ہے تو غریب لوگ پاورٹی لائن سے جب 40 پرسنٹ کے قریب لوگ نیچے زندگی گزار رہے تھے گویا وہ تو ہو گئے فارغ اب جو 60 پرسنٹ رہ گئے اس میں سے مڈل کلاس تک بھی اتے اتے جو لوگ ہیں وہ بھی 20 25 پرسنٹ بنتے ہیں اب مڈل کلاس بھی اگر تھوڑی سی موجود ہے تو اس وہ بھی بجلی کے بل تنخواہوں کے سلیک اور پھر اس کے بعد بچوں کی تعلیم وہ بھی فارغ ہو گئے تو بچے گا کیا تھوڑے سے لوگوں کو آپ پڑھائیں گے اور جو اس کیٹگری کے لوگ پڑھتے ہیں وہ پاکستان میں رکتا ہی نہیں ہے تو پاکستان کو کیا مل رہا ہے تو یہ تو اوور ال جو ہے وہ دیکھ بنتے ہیں اب مڈل کلاس بھی اگر تھوڑی سی موجود ہے تو اس وہ بھی بجلی کے بل تنخواہوں کے سلیب اور پھر اس کے بعد بچوں کی تعلیم وہ بھی فارغ ہو گئے تو بچے گا کیا تھوڑے سے لوگوں کو آپ پڑھائیں گے اور جو اس کیٹگری کے لوگ پڑھتے ہیں وہ پاکستان میں رکتا ہی نہیں ہے تو پاکستان کو کیا مل رہا ہے تو یہ تو اوور ال جو ہے وہ دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس پر سب کو تعلیم ہمارا حق ہے کوئی خیرات نہیں ہے یہ لیپ ٹآپ بانٹ کے آپ سمجھ لیں یہ جو ہے آپ نے ہمیں خیرات دے دی ہے آپ پالیسی ایسی بنائیں جس میں لیپ ٹآپ خود لینے کے قابل ہو سکیں لوگ شکریہ بہت شکریہ
زبردست امیر محترم
Hafiz Naeem Ur Rehman is great leader