مہلت میں فقط 17 دن باقی ہیں یہ یہ کام کرلو ورنہ ۔۔۔۔۔ حافظ نعیم

Hafiz Naeem news

بلوچسستان میں امن لانا ہے تو سب کو ساتھ لیکر چلو ، عوام کو ریلیف دو ورنہ ، بجلی سسیتی کرو، بلدیاتی الیکشن کرواؤ

ہماری  مرکزی ٹیم ہے جماعت اسلامی پاکستان کی اس کا اجلاس ابھی جاری تھا اور ہم نے پاکستان کی مجموعی سیاسی صورتحال ،معاشی صورتحال کا جائزہ لیا اور جماعت اسلامی کی حق دو عوام تحریک جو اس وقت بڑے پیمانے پر رابطہ عوام اور ممبر سازی مہم میں کنورٹ بھی ہوئی ہے اور بڑے پیمانے پر عوام سے رابطہ ہو رہا ہے اس کا جائزہ لیا اور بالخصوص بلوچستان کی صورتحال ملک میں امن و امان کی صورتحال حوالے سے بھی گفتگو ہوئی سب سے پہلے میں بلوچستان سے شروع کرتا ہوں کہ بلوچستان پاکستان کا رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور اسٹریٹیجک اس کی پوزیشن ہے حساس صوبہ ہے اور ماضی میں بھی یہ صوبہ پریشانیوں کا شکار رہا ہے یہاں بنیادی طور پر جو حقوق لوگوں کو ملنے چاہیے وہ حقوق میسر نہیں آتے پسماندگی ہوتی ہے جو زندگی گزارنے کی بنیادی سہولتیں ہیں ان سے عاری رکھا جاتا ہے محروم رکھا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ایک فطری غم و غصہ وہاں موجود رہتا ہے۔

 اسی طرح سے وقتا فوقتا طاقت کے ذریعے سے پورے صوبے کو کنٹرول کرنے کی جو کوششیں ہوتی ہیں وہ کبھی بھی پائیدار ثابت نہیں ہوئیں لہذا موجودہ صورتحال جو بہت حساس نوعیت کی ہے اور اس ساری صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بیرونی قوتیں بھی اپنا پورا کردار ادا کر رہی ہیں۔  ایسے میں تو پاکستان کی حکومت کو اور پاکستان کے تمام اداروں کو پوری قوم کو اعتماد میں لینا چاہیے اور بلوچستان کے لوگوں کو آن بورڈ لے کر ایک گریٹر ڈائیلاگ شروع کرنا چاہیے اور جو محرومیاں ہیں ان کا ازالہ کیا جائے ۔

جو لاپتہ افراد ہیں ان کو بازیاب کیا جائے اور جو ان کی جائز جتنی بھی ڈیمانڈز ہیں ان کو پورا کیا جائے اور امن و امان میں بھی ظاہر ہے کہ کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے ۔لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ یک رخ طریقے سے معاملات کو ہینڈل کرنے کی کوشش کریں اگر محض طاقت کے ذریعے سے مسئلہ حل کرنا اس میں کوئی سبسٹنس ہوتا یا اس کا فائدہ ہوتا تو 77 سال میں کتنے آپریشنز ہوئے ہیں جو بلوچستان میں ہو چکے ہیں خود ہمارے کے پی میں اور قبائلی علاقوں میں کتنے آپریشن ہو چکے ہیں لیکن آج بھی امن و امان کی صورتحال اچھی نہیں ہے لہذا مسئلے کا حل یہی ہے کہ فوری طور پر قومی ڈائیلاگ ہو۔ حکومت جو کچھ بھی ہے اس کو سامنے ا کر یہ کام کرنا پڑے گا بلوچوں سے بات کرنی پڑے گی ان کے جو جینون نمائندے ہیں ان سے بات کرنی پڑے گی اور امن قائم کرنے کی جو اقدامات ہو سکتے ہیں وہ کرنے پڑیں گے۔

 اس لیے جماعت اسلامی یہی سمجھتی ہے کہ بلوچستان کے عوام کو تمام حقوق ملنے چاہیے اور ان کے ساتھ بات چیت کر کے مسائل کو حل کرنا چاہیے اور سب سے پہلے جو حکومت اور ریاست ہے اس کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ آئین اور قانون پر سب سے زیادہ عمل کرنا اسی کا کام ہے اسی کی ذمہ داری ہے۔     تو جوآپ  لوگوں کو لاپتہ کر دیں گے کسی کو مہینوں سے کسی کو برسوں سے اور خود غیر آئینی کام کریں گے غیر قانونی کام کریں گے غیر انسانی کام کریں گے تو پھر آپ دوسرے سے کیسے توقع رکھتے ہیں کہ وہ آئینی اقدامات کرے گا۔  

لہذا جو جتنا ذمہ دار ہے جو جتنا با اختیار ہے اور جتنا طاقتور ہے اس کو آئین کی اتنی ہی پابندی کرنی چاہیے اور پھر پوری قوم کو آئین پر عمل درامد کے لیے ابھارنا چاہیے۔

 اسی طرح سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو ہمارا پورا خیبر پختونخواہ ہے اور اس میں خاص طور پر قبائلی بیلٹ ہے اس کے مسئلے کا حل بھی یہی ہے کہ وہاں جتنی بھی پولیٹیکل فورسز ہیں اور اسٹیک ہولڈرز ہیں ان کو اعتماد میں لے کر آپ وہاں بنیادی مسائل کو حل کریں ۔جب نیشنل ایکشن پلان بنا تھا تو اس میں بھی دو طرح کی چیزیں طے ہوئی تھیں ایک کائنیٹک ایکشن تھا ایک نان کائنیٹک ایکشن تھا کانی ایک ایکشن تو کر لیا جاتا ہے وقتی ضرورت کے تحت۔

وقتی ضرورت کے تحت پکڑدھکڑ بھی ہوتی ہے اپریشن بھی کر دیا جاتا ہے لیکن جو نان پینٹک ایکشن میں جتنی چیزیں اس میں لکھی ہوئی تھیں کہ فیسلیٹیشن کی جائے گی تعلیم کو فروغ دیا جائے گا،  روزگار کے مواقع پورے کیے جائیں گے ان سب چیزوں کے اوپر عمل درآمد نہیں ہوتا۔   

اسی لیے آپ دیکھیں کہ کے پی میں بھی یہی ساری صورتحال ہے بلوچستان میں تو خاص طور پر ہمارے پاس اتنے معدنی وسائل ہیں ذخائر ہیں اور ان ذخائر اور وسائل پر پوری پاکستانی قوم کا حق ہے تو بلوچوں کا تو سب سے پہلے آتا ہے تو اس لیے اس بات کا اہتمام ہمیشہ کیا جائے کہ ان کی ضرورتوں کو مقدم رکھا جائے۔

 جب آپ انڈسٹریلائزیشن نہیں کرتے منڈلز نکل رہے ہوتے ہیں مختلف علاقوں سے اور وہاں پر ویلیو ایڈیشن کے لیے آپ جب انڈسٹریلائزیشن نہیں کرتے اور سارا کا سارا اٹھا کے باہر بھیج دیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں روزگار بھی نہیں ملتا اور آپ کو پیسے بھی اتنے نہیں ملتے جتنے خزانے اللہ نے ہمیں دیے ہوئے ہیں ۔ تو یہ ملٹیپل چیزیں ہیں وہاں پر کی جا سکتی ہیں وہاں پاور جنریشن کا کام پراپر ہو سکتا ہے وہاں گیس کو ورچول پائپ لائنز کے ذریعے سے مختلف علاقوں تک پہنچایا جا سکتا ہے دنیا میں کئی  کانسپٹس موجود ہیں لیکن جب حکومتیں نے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کرتی تو مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں لہذا اب بھی مسئلے کا حل یہ ہے کہ قومی ڈائیلاگ ہو اور پوری قوم کو بلوچستان کے عام عوام کی پشت پر کھڑا ہونا چاہیے۔

 البتہ ظاہر ہے دہشت گردی کی تو کوئی بھی حمایت نہیں کر سکتا اس کی مذمت بھی کرنی چاہیے اور اس کے خلاف قدم بھی اٹھانا چاہیے لیکن صرف اس بات کو ایک رخ طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا جہاں کمپلیکس صورتحال ہو وہاں محض ڈنڈے کے استعمال سے مسئلے حل نہیں ہوتے ۔اور یہ بات اب سب کو اچھی طرح سے سمجھ جانی چاہیے اس 77 سال کا تجربہ کافی ہے اور کتنے تجربات سے پاکستان کو گزارا جائے گا اور مزید تباہی کی جائے گی ۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت ملک میں جو بحران ہے بجلی کا بحران گیس کا بحران یہ بحران ہمارے حکمران طبقے کی نا اہلیوں اور کرپشن کے نتیجے میں اور یہ کرپشن کا دائرہ اس قدر وسیع ہے اور مراد یافتہ طبقے کی مرات کے نتیجے میں ہم نے پاکستان کے عوام کے ان کو ایشوز کو ہائی لائٹ بھی کیا اس پر اپنی تحریک شروع کی ہوئی ہے اور آپ نے دیکھا کہ راولپنڈی میں جو تاریخی دھرنا تھا اس نے بہرحال پاکستان کی قوم کو ایک امید دی ہے اور حکومت نے ہمارے ساتھ ایک تحریری معاہدہ کیا ہے آج اس معاہدے کے 28 دن ہو گئے ہیں اور اب 17 دن باقی ہیں اس پورے عرصے میں صرف ایک ریلیف کا کام کیا گیا ہے کہ صوبہ پنجاب میں دو مہینے کے لیے 14 روپے فی یونٹ بجلی کم کی گئی ہے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بالکل بھی کافی نہیں ہے اور یہ طریقہ بھی درست نہیں ہے کہ آپ محض دو مہینے کے لیے یہ اقدام کریں وقتی ریلیف لوگوں کو فراہم کریں ٹیرف میں کمی کی جائے بجلی کی لاگت کے مطابق بجلی کا بل ہونا چاہیے اور جو خود وزیراعظم کی طرف سے نوٹیفیکیشن ایشو ہوا اور اس میں طے ہوا کہ ایک مہینے میں آئی پی پیز کے حوالے سے کوئی چیز سامنے آئے گی تو خبریں تو ہم سن رہے ہیں کہ 13 آئی پی پیز کے بارے میں یہ ہو گیا اور 15 آئی پی پیز اور 27 ائی پی پیز لیکن واضح قوم کے سامنے چیزیں نہیں آ رہی ہیں 17 دن اب باقی ہیں۔

اس معاہدے پہ اور ہم ایک ایک دن جو ہے وہ گن رہے ہیں اور پبلک سے رابطہ کر رہے ہیں اور اپنی تنظیم کو وسعت دے رہے ہیں بڑھا رہے ہیں اور ہماری جو ممبرشپ ڈرائیو ہے جو خاص طور پر نوجوانوں میں پورے پاکستان میں چل رہی ہے اس میں ہمیں بہت زبردست رسپانس مل رہا ہے اور نوجوان بڑی تعداد میں جماعت اسلامی میں شامل ہو رہے ہیں اس کے ممبر بن رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں جماعت اسلامی ایک ایک زبردست اسٹرینتھ حاصل کر رہی ہے طاقت حاصل کر رہی ہے اور اس طاقت کا استعمال انشاءاللہ ہم خود عوام کے حق میں کریں گے ہم پرامن سیاسی مزاحمت کو آگے بڑھائیں گے۔ اس ملک میں اور ہم عوام کے حق کے لیے ان سارے لوگوں کے ساتھ مل کر بڑا اکامکریں گے اگر حکمرانوں نے اپنے معاہدے پر عمل نہیں کیا ہم ایک دن کے لیے بھی دست  بردار نہیں ہوئے اپنے اس پورے کام سے جو ہم انجام دے رہے ہیں۔

 اس لیے ہماری یہ ممبرشپ کیمپین ابھی جاری ہے میں انشاءاللہ لاہور میں اس کے کیمپ میں جاؤں گا کل گجرانوالہ مجھے جانا ہے پھر میں کراچی میں ہوں گا پھر اس کے بعد پنڈی گوجرخان اسلام اباد پشاور پورے پاکستان میں الحمدللہ میں خود بھی پہنچوں گا ہماری پوری ٹیم بھی پہنچے گی اور ہر سطح پر ہمارےذمہ داران اورہماری یوتھ ونگ ہے لوگوں سے رابطہ کر رہا ہے خواتین بہت بڑے پیمانے پر اس ڈرائیو میں شامل ہو گئی ہیں اور میری پوری پاکستانی قوم سے یہ اپیل ہے کہ وہ جماعت اسلامی کا حصہ بنے اور کنٹریبیوشن کریں اس ملک میں مثبت چیزوں کو فروغ دینے کے لیے اور عوام کے حق اور اختیار کی جو جدوجہد میں شامل ہوں۔

بلدیاتی الیکشن  اسلام آباد کے حوالے سے خبریں چھپی ہیں کہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ ایک مرتبہ پھر وہاں پر بلدیاتی انتخاب کو انہوں نے ملتوی کیا موخر کیا اور بلکہ کینسل ہی کر دیا ہے یہ قابل شرم بات ہے قابل مذمت بات ہے۔ جو لوکل باڈیز ہوتی ہیں وہ ڈیموکریسی  کی ایک نرسری ہوتی ہے۔    بنیادی طور پر عوام کے جو مسائل ہوتے ہیں مشکلات ہوتی ہیں وہ مقامی حکومتوں کے ذریعے سے حل ہوتی ہے لیکن یہاں پر سیاسی جماعتیں سارے اختیارات اپنے پاس رکھتی ہیں ہیں اور نہ مقامی حکومتوں کے انتخابات کرواتے ہیں ۔ نہ طلبہ یونین کے انتخابات کرواتے ہیں ۔ طلبہ ہمارا باشعور ترین طبقہ ہے طلبہ اور 40 سال ہو گئے ہیں پاکستان میں ان 40 سال میں طلبہ یونین کے الیکشن پر پابندی ہے گویا آپ نے نزبان بندی کی ہوئی ہے جمہوریت کی تاکہ جاگیردار تاکہ سرمایہ دار ، تاکہ لٹیرے الیکٹیبل یہ ہمارے سروں کے اوپر آ کر مسلط ہو جائیں اور جو ایک ٹریننگ ہوتی ہے جس کے ذریعے سے قوم کو قیادت ملتی ہے وہ قیادت انہوں نے روکی ہوئی ہے۔  

اسی طرح مقامی حکومتیں ہوتی ہیں جہاں نچلی سطح کی لیڈرشپ لوگوں کو میسر آتی ہے جمہوریت کے لیے بھی قابل قدر چیز ہوتی ہے اور عوامی مسائل کے حل کے لیے بھی بنیادی چیز ہوتی ہے پاکستان کے آئین میں یہ بات لکھی ہوئی ہے ارٹیکل 48 ہے کہ تمام مالیاتی سیاسی اور انتظامی اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل کیے جائیں۔

 لیکن صوبائی حکومت یں این ایف سی ایوارڈ میں سے پیسے لے لیتی اور نچلی سطح پر اختیارات کو منتقل نہیں کرتے خود اپنی ہی پارٹی کے لوگوں سے لوگ خوفزدہ ہوتے ہیں 2015 میں آخری مرتبہ کورٹ کے کہنے پر انتخاب ہوا پنجاب میں  اس دوران میں نون لیگ کی حکومت پھر پی ٹی آئی کی حکومت پھر اس کے بعد دوبارہ پی ڈی ایم ون کی حکومت اور اب پی ڈی ایم ٹو کی حکومت چل رہی ہے اور یہ الیکشن نہیں کرانا چاہتے یہ بہاں ہیلوں  بہانوں سے کبھی ایک میں ایک ترمیم کر دیں گے کبھی دوسری ترمیم کر دیں گے ہمارا تو یہ مطالبہ ہے کہ یہ مقامی حکومتوں کا جو تصور ہے وہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کی طرح ٹیئر آف گورنمنٹ ہونا چاہیے۔

اور آئین میں اس کی پورا ایک باب ہونا چاہیے تاکہ اس کو کوئی تبدیلی نہ کر سکے اپنی مرضی سے صوبے اس کو ہینڈل نہ کریں یہ عوام کا حق ہے کہ انہیں مقامی حکومت ملے لہذا اسلام اباد میں جو انہوں نے ملتوی کیا ہے یہ چوتھی مرتبہ انہوں نے بلدیاتی انتخاب ملتوی کیا یہ قابل مذمت ہے اس کو جماعت اسلامی نے کورٹ میں چیلنج بھی کیا ہے ہم مقدمہ لڑیں گے اسلام آباد کے عوام کا اور اسلام آباد جیسے شہر میں جو ایک ماڈل شہر سمجھا جاتا تھا ۔اس وقت جس طرح کی صورتحال پیدا کر دی ہے اس حکمران طبقے میں ہر شخص اس سے ناراض ہے۔ آپ جہاں جائیں آپ کو نظر اتا ہے کہ مسائل کا ایک انبار ہے اور کوئی آواز نہیں ہے تو یہ مقامی حکومت نہیں ہوتی ہیں کہ جس کے نتیجے میں لوگوں کے مسئلے حل ہوتے ہیں ۔

لہذا جماعت اسلامی جو حق دو عوام کو تحریک چلا رہی ہے اسلام آباد میں انشاءاللہ ہم اسلام اباد کے عوام کے ساتھ مل کر ان کے مسائل کے حل کے لیے اور انتخاب کو کروانے کے لیے تحریک چلائیں گے جیسے ہم نے کراچی میں چلائی وہاں بھی انتخاب نہیں کرانا چاہتے تھے چار بار انہوں نے ملتوی کیا تھا ہمیں ہم نے دھرنے دیے احتجاج کیا اور بہرحال اسی حکومت سے جو ہے وہ انتخاب کروائے وہ الگ بات ہے کہ انہوں نے کراچی میں بھی جو ہے قبضہ کر لیا اور پوری مافیا بن کر انہوں نے جو ہے وہ عوام کی رائے کو پامال کیا اور اس وقت بھی وہاں پر جو میئر صاحب ہیں وہ قبضہ کر کے ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔ اور اسی لیے آپ دیکھیں کہ بارش کے بعد جو حال ہے پورا شہر تباہ ہو چکا ہے اربوں روپے بہا دیے ہیں اس بارش نے ان کی کرپشن جو ہے وہ اس کی غلاظت باہر نکل کر سامنے آگئی ہے یہ پیپلز پارٹی ہے یہ نون لیگ ہے یہ سب ایک حکومت نے ایک پی ڈی ایم ہے اور یہ سب مل کر جو ہے پاکستان میں کرپشن اور لوٹ مار اور عوام کو آپ سے محروم کرتے ہیں لہذا مقامی حکومتوں کے لیے اور لوکل ایشوز کو ایڈریس کرنے کے لیے سب سے زیادہ اگر کسی کو اس میں جو ہے وہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا انٹریکٹ ریکارڈ ہے اور ہم عوام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں وہ جماعت اسلامی ی تو اسلام اباد میں کسی صورت میں بھی یہ قابل قبول نہیں ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے کو بڑی طور پر الیکشن کمیشن کو بھی ایڈریس کرنا چاہیے۔

اس وقت ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ چاول کی فصل اب تقریبا تیار ہے کپاس تیار ہے اور اس مرتبہ چاول کی یہ فصل ہے یہ کم کاشت کی گئی ہے کیوں اس لیے کہ جو گندم کی فصل تھی اس کے اوپر کسانوں کو اور کاشکاروں کو پراپر پیسے نہیں دیے گورنمنٹ نے دھوکہ دیا جھوٹ بولا اور پنجاب حکومت نے خاص طور پر اس میں پوری قوم کے ساتھ جھوٹ بولا ہے پہلے انہوں نے ایک رقم طے کی کہ ہم خریدیں گے پھر اس کے بعد کہا کہ ہم گندم نہیں خریدیں گے پھر اس کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم سبسڈی دیں گے پھر کہا قرض دیں گے اور ابھی تک اس کے اوپر عمل درامد نہیں ہوا بہت محدود پیمانے پہ اپنی پسند کے چند لوگوں کے ساتھ انہوں نے کوئی کام کیا ہو تو کیا ہو ایسی صورتحال میں اب مسئلہ یہ ہے کہ جب یہ چاول کی ختم ہو جائے گی تو پھر گندم کی فصل شروع ہوگی پچھلی مرتبہ ریکاردڈ کاشت ہوئی  لیکن اس مرتبہ کسان اور کاشتکار اتنے پریشان ہیں کہ جب ہمیں پیسے پورے نہیں ملیں گے ہماری لاگت بھی پوری نہیں ہمیں ملے گی تو ہم کیسے گندم کو کاشت کریں اور اس مایوسی کے نتیجے میں گندم کا بحرہ پیدا ہوگا اور پھر یہ مافیائی رپورٹ کرے گی گندم اور پاکستان کا زر مبادلہ اس طرح سے یہ برباد کریں گے اور ہمیں تو پہلے یہ سوال کا جواب میں اج اڈٹر جنرل کی طرف سے بھی بات ائی ہے کہ یہ جو گندم امپورٹ کی گئی تھی جبکہ ہمارے پاس گندم سٹاک میں موجود تھی گوداموں میں موجود تھی اور بہترین فصل ہونے والی تھی تو جن لوگوں نے بھی گندم امپورٹ کی تھی 300 ارب روپے تقریبا ایک بلین ڈالر سے اور ان حالات میں جب جو ایک کشکول لے کر بھاگ پھر رہے تھے

حکومت حکمران اور آرمی چیف کو ساتھ لے لے کے گھوم رہے تھے اس وقت جو ہے وہ ایک بلین ڈالر کا نقصان پاکستانی قوم کو پہنچا تھا تو جو اس وقت کیا ٹکر گورنمنٹ تھی اور اس سے پہلے شہباز شریف صاحب کی گورنمنٹ تھی اور اب جو گورنمنٹ موجود ہے ان کو کٹہرے میں انا چاہیے اور یہ بتائیں کہ پاکستان کو جو نقصان پہنچایا ہے وہ کیوں پہنچایا ہے ان سے پیسے بھی وصول کیا جائے اور ان کو اندر بھی کیا جائے جو جو اس میں ملوث ہے اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو زراعت ہے یہ تو اس وقت پاکستان کی بیک بون آپ نے رپورٹ دیکھی ہے پچھلے سال کی صرف زراعت کے شعبے میں چھ پرسنٹ ہمارا اضافہ ہوا باقی تو کہیں پر بھی نہیں ہوا تو ایسی صورتحال میں آپ اس کو بھی تباہ کر دیں اور قوم کے ساتھ یہ جھوٹ بولیں اور دھوکہ دیں کہ ہمارے مہنگائی کم ہو گئی ہے میں ابھی یہ صحافی سارے بیٹھے ہوئے ہیں ان سے کوئی پوچھتا ہوں کون سی چیز کم ہو گئی کیا مہنگائی کم ہو گئی ہے اس وقت آپ لوگوں سے کیا کیوں جھوٹ بولتے ہو کیوں دھوکہ دیتے ہو کیوں نمبر گیم کے اندر لوگوں کو بے وقوف بناتے ہو اور اگر مہنگائی انفلیشن کم ہو گئی ہے تو پھر یہ بتائیں کہ سود پھر ساڑھے 19 پرسنٹ کیوں ہے اس کو تو 10 پرسنٹ پہ ا جانا چاہیے یہ 10 پرسنٹ پہ ا جائے تو ساڑھے چار ہزار ارب روپے تو بینکوں کو ہمیں اضافی دینے ہیں ساڑھے 19 پرسنٹ سود کی وجہ سے جو گورنمنٹ کا قرضہ لیا ہوا ہے بینکوں کے ساتھ مل کر فراڈ کیا ہوا ہے چار ہزار روپے بن جائیں گے اس سے پاکستان کی بجلی سستی ہو جائے گی غیر سستی ہو جائے گی معیشت کا پہیہ چلنے لگے گا تو یہ کام نہیں کر رہے تو پھر کیوں دھوکہ دے رہے ہیں

م یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں ایک مافیا بن کر ایک حکمران طبقہ موجود ہے یہ بینکوں کے خلاف جو کہ پاکستانی قوم کی حالت تباہ ہوئی صنعتیں تباہ ہوئی تجارت تباہ ہوئی بینک پنپ رہے ہیں کیوں دنیا میں ایسا کہیں ہو سکتا ہے وہی تو ہو سکتا ہے جہاں سرمایہ داروں کا نظام نچوڑ رہا ہو لوگوں کا خود پی رہا ہو اور پاکستان میں یہ ایک چھوٹا سا طبقہ خاص طور پر بینکوں کا حکومت کے ساتھ مل کر خون نچوڑ رہا ہے ہمارا اور ان کو ساری مرات حاصل ہے ائی ایم ایف اس میں کچھ نہیں کہتا ائی ایم ایف جاگیرداروں پر ٹیکس لگانے کے لیے صرف زبانی جمع خرچ کرتا ہے تین تین سو مربع آپ اندازہ لگائیں ہزاروں ایکڑ رکھنے والے جاگیردار ہیں ایک پرسنٹ ایسے لوگ ہیں جن کے پاس 20 پرسنٹ کلٹیویٹڈ لینڈ ہے سیدھا سیدھی سیدھی بات ہے اور ایک پرسنٹ یعنی بڑے جاگے دار جن کو میں کہہ رہا ہوں پھر اس کے بعد تقریبا 2.8 پرسنٹ وہ ہے جن کے پاس مزید 20 پرسنٹ لینڈ ہے گویا تین چار پرسنٹ ہیں جن کے پاس تقریبا 30 سے 40 پرسنٹ زرعی زمین ہے ان سب نے مل کر چار سے پانچ ارب روپے انکم ٹیک جمع کی ٹیک جمع کرایا انکم ٹیکس لائن پہ کون دے گا ان میں سے اور تنخواہ دار طبقے نے 368 روپے جمع کرایا ہے تو آپ بتائیں کہ ان جاگیرداروں کا پاکستان ہے یہ ان طاقتوروں کا پاکستان ہے ان سے ٹیکس وصول کیوں نہیں کیا جاتا ہمارا خون کیوں نہیں چھوڑا جاتا ہے تو اس لیے ان کے خلاف اواز اٹھانا پر فرض ہے

تو اس لیے ان کے خلاف ہوا بچنا آپ پر فرض ہے ان بڑے بڑے جاگیرداروں کو جو ہر پارٹی میں موجود ہیں اور اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ان سے پوچھو ان کے پاس یہ جاگیریں کہاں سے ائیں گے انگریزوں کے زمانے کی جاگیریں چل رہی ہیں گھوڑے پال زمین ہیں کسی کے پاس عطا کرتا زمین ہے اور یہ رقبے لے کر غداریاں کر کر کے ہمارے مسلط ہیں ان کے اوپر ٹیکس لگنا چاہیے اور تنخواہدار طبقے کا ٹیکس کم ہونا چاہیے ہماری حق تو عوام کو تحریک یہ تحریک ہے اپنی مرات کم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اپنی جو ہے وہ گاڑیاں اپنی سی سی کم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں صدر مملکت کو لا متعین بجلی کی سہولت حاصل ہے یونٹ خرچ کرنے کی زرداری صاحب اتنا ہی کر لیں کم کل اعلان کر دیں اس بات کا یہیں سے شروع کریں چلیں جتنے بھی بڑے بڑے لوگ ہیں کم از کم اپنے آپ سے اغاز کریں وزیراعظم کو بھی یہ سہولت حاصل ہے اور اگر دنیا سے تشریف لے جائیں سبھی کو لے جانا ہے تو زوجہ محترمہ کے لیے ایک سہولت حاصل ہے اور پتہ نہیں کیا کیا مراد ان کو حاصل ہوتی ہیں اور ان کی یہ مراعات ہمارے ٹیکسوں کے پیسوں سے ہے اور یہ مزے کر رہے ہیں یشیا کر رہے ہیں ان کی فری بجلی ان کی پیٹرول اس کے اوپر کوئی بات کرنے والا نہیں ہے اس لیے انہیں پیچھے ہٹنا پڑے گا اس لیے ہماری حق تو عوام کو تحریک اگے بڑھ رہی ہے اس میں ممبرشپ کا یہ عمل ہے ہم 50 لاکھ کا ابتدائی ہدف ہے انشاءاللہ ممبرز بنائیں گے پورے پاکستان میں اور مسلسل ہم میدان عمل میں ہیں اللہ نے چاہا تو انشاءاللہ پاکستان کے عوام کا حق حاصل کریں گے

اور اخری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں اگر پاکستان کو اگے بڑھانا ہے تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ائین اور قانون پر سبب کریں ہر ادارہ اپنی اپنی ائینی پوزیشن پر واپس جائیں اور جو لیجٹمیسی ہے ٹی وی عمل اس کو برقرار رکھا جائے بعض لوگ اب یہ بات کہہ رہے ہیں کہ فارم 45 45 سے کچھ نہیں ہوتا میں ایسے لوگوں کے بارے میں کہنا چاہتا ہوں کہ یہ قوم کے ساتھ مذاق نہ کریں قوم 45 ہی واحد لیگل ڈاکومنٹ ہے جس پر حکومت بننی چاہیے فارم 47 کو جو لوگ بھی مستند قرار دے رہے ہیں اور اس کی حکومت کو لیجٹیمیٹ قرار دے رہے ہیں وہ پاکستان کے ساتھ اچھا نہیں کر رہے دو سینٹ کی سیٹوں اور ایک گورنرشپ کے لیے پاکستان کے ساتھ کھلواڑ نہ کیا جائے اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت جو الیکشن 2024 میں ہوا اس میں جو فارم 45 کے مطابق جیتا ہے کوئی بھی ہو اس کو جیتا ہوا قرار دیا جائے جوڈیشل کمیشن بنے اس کے لیے سپریم کورٹ کا اور فارم 47 کی مسلط کردہ جو لوگ بھی ہیں ان کو ڈس کوالیفائی کیا جائے اس کے علاوہ کوئی دوسرا اپشن نہیں ہے جمہوریت کو اگے بڑھانے کا بہت بہت شکریہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top