چیف جسٹس کو سامنے آنا چاہیے اور اس پر اپنا مؤقف دینا چاہیے
آج اس بات کا امکان موجود ہے اگرچہ کہ انہوں نے قومی اسمبلی اور سینٹ کے ایجنڈے پر تو واضح طور پر نہیں رکھا ہے لیکن حکومت جس طرح کے کام کرتی ہے اور جو ان کا طریقہ واردات ہے اس میں عین ممکن ہے کہ آج یہ ججز کی ا جو چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کی عمر کا معاملہ ہے اس کو بھی یہ ٹیبل کر دیں میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات کے تناظر میں پاکستان کے لیے یہ انتہائی خراب بات ہوگی خطرناک بات ہوگی اور ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چیف جسٹس اف پاکستان کو اس سلسلے میں بہت واضح طور پر اپنا موقف بیان کرنا چاہیے تھا قوم کے سامنے اور حکومت کو بھی بتا دینا چاہیے تھا کہ یہ چیز درست نہیں ہے اور اس کے نتیجے میں مزید افر تفری اور انتشار پھیلے گا ویسے بھی پہلے عہدےپر ا جائیں اور پھر ایکسٹینشن حاصل کر لیں اور یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ حکومت اور سپریم کورٹ کے معاملات کیا ہیں پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بھی جھجک ہوتی تھی امگر اب تو کھلم کھلا یہ بات ہو رہی ہوتی ہے کہ کچھ ججز حکومت کے ساتھ ہیں کچھ اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔
جب اس حد تک بات آگے چلی جائے تو ملک کی عدالتی نظام پر کس کا اعتبار رہے گا جب چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جسٹسز کے بارے میں یہ پتہ چل جائے کہ یہ اس کا آدمی ہے اور وہ اس کا آدمی ہے اور یہ تاثر عام ہو جائے اور تاثرہی نہ ہو بعض فیصلے بھی یہ بولتے ہوئے نظر آتے ہوں تو اس کے نتیجے میں تو پھر پورا عدالت ہی نظام اس کے اوپر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا ہے اس لیے جو بھی ہے نظام تو یہی ہے فی الحال تو جب یہ نظام موجود ہے تو پھر جو اس نظام میں موجود لوگ ہیں ان کی ذمہ داری بنتی ہے نا کہ اس پوائنٹ اف ٹائم پہ وہ آگے بڑھے میں آج بھی توقع رکھتا ہوں کہ چیف جسٹس اف پاکستان سامنے آئیں گے اور اپنا موقف قوم کے سامنے پیش کریں گے کہ نہ مجھے ایکسٹینشن چاہیے اور نہ یہ وہ وقت ہے کہ جس میں ججز کی عمر کو بڑھایا جائے
اسی طرح ججز کی تعداد میں اضافہ پہلے بھی موضوع رہا ہے لیکن اس خاص موقع کے اوپر جب لوگ نمبر گنتے ہوں سپریم کورٹ کے ججز کے کہ وہ اس کی طرف ہے اور وہ اس کی طرف اگر حکومت یہ چاہتی ہے کہ اپنی پسند کے ججز سپریم کورٹ میں انڈکٹ کر دیں اور اپنی مرضی کے فیصلے حاصل کر لے تو ظاہر ہے اس سے بڑھ کر بدقسمتی کوئی نہیں ہوگی اس لیے اس مسئلے کو حکومت کو نہیں چھیڑنا چاہیے اور ہم بہت پوری قوم دیکھ رہی ہے کہ کون سی پارٹی کا موقف اختیار کرتی ہے اگر تو یہ مسئلہ ہے کہ لوگوں کو دھمکایا جا رہا ہے ڈرایا جا رہا ہے تو اس کو سیریس طریقے سے اس کا نوٹس لینا چاہیے
میں سلمان اکرم راجہ کے ان بیانات پر نوٹس لینے کا مطالبہ کرتا ہوں کہ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے ممبران کو ان کے گھر والوں کو اہل خانہ کو ڈرایا اور دھمکایا جا رہا ہے اگر تو ان کی یہ بات غلط ہے تو بھی سامنے ا جائے اور اگر ان کی یہ بات صحیح ہے تو اس سے بڑھ کر بدنصیبی کیا ہو سکتی ہے فاشزم کیا ہو سکتا ہے اس سے بڑھ کر کہ آپ اپنی مرضی کا فیصلہ اور اپنی مرضی کی ترمیم کروانے کے لیے پارلیمنٹ کے ممبران کے ساتھ یہ سلوک کریں اور ان کے گھر والوں کے ساتھ یہ تو ناقابل قبول چیز ہے اور کتنا جمہوریت کو پامال کیا جائے گا ایک طرف میثاق پارلیمنٹ کی بات کرتی ہیں یہ پارٹیاں اور دوسری طرف حکومت اپنی مرضی کی ترمیم کرنے کے لیے اس طرح کے اگر ہیپنڈے استعمال کرتی ہے تو اس سے بڑھ کر خراب بات کیا ہو سکتی ہے لہذا اس کا نوٹس بھی لیا جائے اس کی انکوائری بھی کی جائے اور ایسی آئینی ترمیم اگر ہو بھی جائے گی تو اس کی کیا حیثیت ہوگی پاکستانی قوم کی نگاہ میں خود آئین کو بے وقت کرنے والا یہ عمل ہے آئین ایک ایسا ڈاکومنٹ ہے جس کے اوپر قوم متفق ہے ہو سکتی ہے یہ ایک بنیادی ڈاکومنٹ ہے آپ اسی کو بے توقیر کر دیں آپ اسی پہ سے جو ہے وہ سپاہی سوالات اٹھانا شروع کر دیں تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ پاکستان میں پھر بچے گا کیا اس لیے اس کو سیریس لینا چاہیے اور حکومت کو ایسے کسی بھی عمل سے باز انا چاہیے۔